کسی گاؤں میں ایک سیٹھ رہتا تھا۔
جو ہر وقت فکر مند اور پریشان رہتا اسے یہی فکر رہتی تھی کہ میرے بعد میرے بچوں کا کیا بنے گا وہ اپنا گزارہ کیسے کریں گے اس کی خواہش تھی کہ وہ اتنے پیسے جمع کر جائے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے بچوں کے پاس پیسوں کی کبھی کمی نہ ہو ہر وقت اسی سوچ اور فکر میں رہتا۔
ایک دن اس نے اپنے مینجر کو بلایا اور پوچھا کہ مجھے حساب کر کے بتاؤ کہ میرے پاس کل کتنا سرمایہ ہے۔
اور وہ کتنے عرصے تک میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہوگا کتنے سالوں تک میرے بچے میری فیملی ان پیسوں سے اپنی ضروریات پوری کر سکے گی اس کا مینجر حساب کرنے میں لگ گیا کافی دن حساب کرنے کے بعد مینجر نے بتایا کہ سیٹھ صاحب میں نے آپ کے روزانہ کے خرچے کو نوٹ کیا ہے۔
جتنا آپ اور آپ کی فیملی ایک دن میں خرچ کرتی آئی ہے اگر آپ اس حساب سے ہی خرچ کرتے رہیں اور جتنا آپ کے پاس آج سرمایہ ہے وہ سرمایہ آپ آئندہ آنے والی دو نسلوں کے لیے بھی کافی ہوگا یعنی آپ کے بچوں اور آپ کے پوتوں کو بھی کبھی پیسے کی کمی نہیں ہوگی بجاے خوش ہونے کے سیٹھ یہ بات سن کر پریشان ہوگیا کیا بات کر رہے ہو صرف دو نسلوں کے لیے ہے تو پھر میری تیسری اور چوتھی نسل کا کیا بنے گا۔
وہ اپنا گزارہ کیسے کریں گے اپنے خرچے کیسے پورے کریں گے سیٹھ کو اپنی تیسری اور چوتھی نسل فکر ستانے لگی۔
دن رات پریشان رہنے سوچتے رہنے اور کام کرنے کی وجہ سے اس کی صحت خراب رہنے لگی وہ بیمار ہو گیا۔بڑے بڑے اچھے حکیموں نے اس کا علاج کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا ایک دن سیٹھ کا ایک دوست اس سے ملنے کیلئے آیا وہ سیٹھ کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
تمہیں کیا ہوا ہے یہ تم نے اپنا کیا حال بنالیا ہے خدا کا دیا سب کچھ تو تمہارے پاس ہے پھر بھی اتنے پریشان کیوں ہو۔سیٹھ بولا میں نے اتنی محنت کی ہے اتنا پیسہ کمایا ہے لیکن اتنی محنت کرنے کے باوجود بھی میری جو تیسری نسل آئے گی اور چوتھی نسل آئے گی ان کے استعمال کیلئے کوئی پیسہ نہیں ہے۔
میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ میری وہ نسل اپنی ضرورتیں کیسے پوری کرے گی اپنے اخراجات کے لیے پیسہ کہاں سے لے گی اگر ان کے پاس پیسوں کی کمی ہوگی تو کیا ہوگا مجھے تو بس اس بات کی فکر ہے۔
اب دوست حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگا وہ سیٹھ کی پرابلم سمجھ گیا اور سیٹھ کو کہا کہ ساتھ والے گاؤں میں ایک بڑے سمجھدار بزرگ ہیں۔کل ہم ان کے پاس چلتے ہیں ان کیلئے کھانے پینے کی کچھ چیزیں بھی لے جائیں گے اگر وہ خوش ہوئے تو ہو سکتا ہے تمہاری پرابلم کا بھی کوئی حل ہمیں بتا دیں۔
اگلے دن سیٹھ نے اچھا سا کھانا پکوایا اور اس آدمی کی درسگاہ پہنچ گیا اس بزرگ آدمی نے بڑی خوشدلی سے سیٹھ کا استقبال کیا اپنے شاگردوں کو آواز دے کر کہا کہ سیٹھ صاحب آئے ہیں اور ہمارے لیے کھانا لے کر آئے ہیں ان کا شکریہ ادا کریں اور ان سے کھانا وصول کر لیں۔
شاگردوں نے کہا لیکن ہمارے پاس تو آج کا کھانا پہلے سے ہی موجود ہے کوئی ہمیں پہلے ہی کھانا دے گیا ہے۔
یہ بات سن کر بزرگ نے سیٹھ صاحب سے معذرت کرلی ہمیں اس کھانے کی ضرورت نہیں ہے آپ یہ واپس لے جائیں۔
ہمارے پاس تو آج کا کھانا موجود ہے اور ہمارا یہ اصول ہے کہ ہم صرف ایک دن کا کھانا ہی قبول کرتے ہیں۔
جو صبح سب سے پہلے آکر ہمیں کھانا دے ہم اس سے لے لیتے ہیں اس کے بعد جو بھی آئے ہم اس سے معذرت کر لیتے ہیں۔
کیونکہ ہمیں ضرورت ہی نہیں ہوتی سیٹھ صاحب نے کہا کہ جناب میں نے یہ بہت اچھا کھانا خاص طور پر آپ لوگوں کیلئے بنوایا ہے۔
مہربانی کر کے آپ اسے قبول کر لیں آپ اسے کل کھا لیجئے گا اس طرح آپ کو کل کے کھانے کی فکر بھی نہیں رہے گی۔
بزرگ مسکرائے اور بولے کہ آج کے روز ہم صرف آج کے ہی بارے سوچتے ہیں۔
آج کی فکر کرتے ہیں کل کی ہمیں کوئی فکر نہیں ہوتی کل کی کل دیکھیں گے
کل جب آئے گا تو اس کا کھانا بھی Arrange ہو ہی جائے گا۔
سیٹھ اس بزرگ کی بات سن کر بڑا حیران ہوا سر آپ کل کے کھانے کی فکر کیوں نہیں کرتے اگر آپ کو کل کا کھانا نہ ملا اگر کل کوئی کھانا لے کر نہ آیا تو آپ کیا کریں گے۔
بزرگ مسکرائے اور بولے جس خدا نے ہمیں آج کا کھانا دیا ہے
وہی ہمیں کل کا کھانا بھی دے گا ہمیں اس بات کو یقین ہے اور کون جانتا ہے کہ کل آئے گا بھی کہ نہیں کل کس نے دیکھا ہے ہم کل کے بارے سوچ سوچ کر کیوں پریشان ہوں۔
ہمیں صرف آج میں زندہ رہنا چاہیے اور آج کی ہی فکر کرنی چاہیے زندگی میں اکثر ہم آنیوالے کل کے بارے سوچ سوچ کر ہم اپنے آج کو مشکل اور تکلیف دہ بنا لیتے ہیں۔
کل کیا ہوگا یہ ہو گیا تو کیا ہوگا وہ ہو گیا تو کیا ہوگا یہی سوال ہمارے ذہن میں گھومتے رہتے ہیں۔
ہمیں ہر وقت اپنے Future کی فکر رہتی ہے کل کیا ہوگا اچھے مارکس نہ آئے تو کیا ہوگا اچھی جاب نہ ملی تو کیا ہوگا کیا ہم اپنی ذمہ داریاں نبھا پائیں گے اپنے بچوں کا مستقبل اچھا بنا سکیں گے۔
اصل میں ہم آج میں رہنے کی بجائے اپنے Future میں ہی رہتے ہیں اپنے مستقبل کے بارے سوچتے ہوئے پریشان ہوتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں۔
کہ اپنے Future کے بارے سوچ سوچ کر ہم آنیوالے کل کی پریشانیوں کو تو کم نہیں کر سکتے لیکن اپنے آج کی خوشیاں ضرور بر باد کر لیتے ہیں۔
اس لئے دوستوں ہمیں اپنے آج پر فوکس کرنا چاہیے اپنی نظر اپنے آج پر رکھنی چاہیے کل کی planning ضرور کریں لیکن کام اپنے آج کو بہتر بنانے پر ہی کریں۔
آج آپ جو بھی کر رہے ہیں وہ پورے دل سے کریں پوری توانائی پوری محنت سے کریں اپنے آج کو بہتر بنائیں اپنے آج کو خوشی سے جئیں۔
جو بھی خوشی کا لمحہ آپ کو ملتا ہے اس کو جی بھر کر celebrate کریں
اگر آپ اپنے آج کو بہتر بنائیں گے آپ کا آج آپ کے گذرے ہوئے کل سے بہتر ہوگا تو آپ کا آنیوالہ کل بھی ضرور بہتر ہوگا۔